Maktaba Wahhabi

45 - 150
لیکن یاد رہے کہ قراء ات متواترہ کاانکار زیادہ لوگ کریں یا کم لوگ کریں، اس سے قراء ات کے ثبوت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ محقق علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتنی ہی قراء ات ایسی ہیں، جن کا بعض یا اکثر اہل نحونے انکار کیا ہے، لیکن ان کا یہ انکار معتبر نہیں ہے، کیونکہ سلف صالحین میں جن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے وہ سب ان قراء ات کو قبول کرنے پر متفق ہیں۔‘‘[1] خلاصہ کلام ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی ایک قراء ات بھی ایسی نہیں ہے جو مطلق طور پر تسلیم کی گئی ہو اور ہم اس کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہوں کہ یہی وہ مقدس قراء ت ہے ، جسے بلا استثناء تمام لوگ تسلیم کرتے ہیں یا اس کو قبول کرنے میں کوئی طعن ، جرح یاکسی قسم کا کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوا ہے۔ کیا قراء ات قرآنیہ کاکھلم کھلا انکارکرنا شرعاجائز ہے؟ ہرگز نہیں۔ قراء ات قرآنیہ ضروریات دین میں سے ہے۔ امام عبدالوھاب بن سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ قراء ات سبعہ، جن کو امام شاطبی رحمہ اللہ نے اور قراء ات ثلاثہ( یعنی امام ابوجعفر، امام یعقوب اورامام خلف رحمہم اللہ کی قراء ات)جن کو امام ابن الجزری نے بیان کیا ہے، وہ متواتر قراء ات ہیں اور دین کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ ہر وہ قراء ت جس کے ساتھ قراء عشرہ میں سے کوئی قاری منفرد ہوا ہے، وہ بھی ضروریات دین میں سے ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہیں۔صرف جاہل شخص ہی ان کا انکار کر سکتا ہے۔ ان قراء ات کاتواتر صرف ان قراء کرام تک ہی محدود نہیں ہے جنہوں نے ان روایات کو پڑھا ہے، بلکہ کلمہ شہادت کی گواہی دینے والے ہر مسلمان کے نزدیک متواتر ہیں۔ اگرچہ وہ شخص کوئی عامی اورجاہل ہی کیوں نہ ہو، جس نے قرآن مجید
Flag Counter