Maktaba Wahhabi

109 - 150
علاوہ کئی کبار متقدمین علمائے اسلام سے ان قراء ات عشرہ کامتواتر ہونا نقل کیاہے۔ اِنکار ِقراء ات کا حکم جب سابقہ بحث سے آپ نے یہ جان لیا ہے کہ آئمہ عشرہ کی قراء ات متواترہ ہیں تو یہ جاننا بھی واجب ہے کہ ان قراء ات میں سے کچھ ایسی ہیں،جو جمہور کے ہاں قطعی طو رپر متواتر ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو عام لوگوں سے ہٹ کر صرف محققین اہل فن کے ہاں متواتر ہیں۔ پہلی قسم کا منکر بالاتفاق کافر ہے اوردوسری قسم کے منکرپرجب واضح دلائل کے ساتھ قراء ات کا تواتر ثابت کرکے اس پرحجت قائم کردی جائے اوروہ پھر بھی اپنے انکار پرمصر رہے، تو پھر اس پر بھی کفر کا حکم لگایاجائے گا۔ قراء ات کی صحابہ یا آئمہ کی طرف نسبت کا سبب یہ بات بھی یاد رہے کہ جب کسی قراء ت کی نسبت کسی صحابی کی طرف کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ یہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قراء ت ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ صحابی صرف یہی قراء ت جانتے تھے،یا صرف اس سے یہی قراء ت نقل کی گئی ہے یاصحابی نے اپنی مرضی سے اس قراء ت کو گھڑ لیاتھا،بلکہ اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ صحابی اس قراء ت میں سب سے زیادہ ضابط تھے۔ اس کے اس قراء ت کی طرف بکثرت میلان اور تعلق کی وجہ سے یہ قراء ت اُس صحابی سے مشہور ہوئی اوراسی سے حاصل کی گئی۔یہ چیز اس بات سے مانع نہیں کہ وہ صحابی کوئی اورقراء ت نہیں جانتے تھے۔ اسی طرح حروف اورقراء ات کی نسبت آئمہ قراء ت اوران کے رواۃ کی طرف ہے۔ اس نسبت کامطلب یہ نہیں ہے کہ صرف یہ قاری یاراوی ہی اس قراء ت کو جانتا تھا یایہ قاری یا راوی اس قراء ت کے علاوہ دیگر قراء ات نہیں جانتاتھا یااس قاری یاراوی نے اپنی مرضی سے اس قراء ت کو گھڑلیا تھا۔ ہر وہ قراء ت جس کی نسبت کسی ایک فرد کی طرف کی جاتی ہے، اس قراء ت کو اس فردِ واحد کے علاوہ بھی اتنے لوگ پڑھتے اورجانتے تھے، جن کا شمار ناممکن
Flag Counter