Maktaba Wahhabi

26 - 150
مستشرقین کی اس رائے سے صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں یعنی صحابہ، تابعین اور ان کے بعدکے زمانے کے لوگوں نے یہ قراء ات گھڑ لی ہیں اور رسم میں جن قراء ات کا احتمال تھا مسلمانوں نے انہیں قرآن کا نام دے کر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا اور تمام کے تمام مسلمان اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں کہ یہ قراء ات آپ سے ثابت ہیں اور انہوں نے یہ قراء ات درجہ بدرجہ نسل در نسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی ہیں۔ حالانکہ تمام مسلمانوں کا اس امر پر پختہ یقین ہے کہ قراء ات اصل ہیں اور رسم عثمانی اس کے تابع ہے اور وہ ان قراء ات کے لئے بنایا گیا ہے۔ اور تمام مسلمان کے نزدیک یہ بات قطعی تواتر سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف قراء ات کے ساتھ قرآن کی ادائیگی اور اس کے تلفظ کی تعلیم دی اور پڑھ کر بھی سنایا۔ مزید یہ کہ تمام قراء ات حق ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ اور یہ کہ تمام قراء ات لغت ِعرب اور قبائلی لہجات کے مطابق ہیں۔ قرآن کو مختلف قراء ات میں نازل کرنے کا مقصد اس کی حفاظت کو یقینی بنانا اور اُمت کے لئے اس کو یاد کرنے میں آسانی پیدا کرنا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان قراء ات کو اللہ کے رسول سے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالمشافہ پڑھ کر سنائیں اور اپنے سینوں میں محفوظ کیا۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا اس کو لکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قراء ات سکھانے کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا کہ قرآن مجید ان حروف پر نازل کیا گیا ہے پس جو حرف تمہیں آسان لگے اس کے مطابق پڑھ لو۔ پس صحابہ نے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن اور اس کی قراء ات سنی تھیں ویسے ہی ان کو آگے ادا کرتے ہوئے تابعین کو سنا دیا۔ جیسے انہوں نے ادائیگی اور تلاوت کی مختلف وجوہات سے قرآن پڑھا تھا اسے بغیر کسی کمی بیشی کے آگے پہنچا دیا۔ جوکچھ بھی صحابہ نے قرآن اور اس کی قراء ات کو آپ سے سنا تھا یا زبانی یاد کیا تھا اس کو انہوں نے رسم عثمانی میں جمع کرنے کی کوشش کی۔ صحابہ کی یہ جماعت وحی کی امین تھی۔پھر ان کے بعد آنے والے ثقہ، امانت دارراویوں نے ان سے
Flag Counter