ہم نے اپنے اس رسالہ میں ان شبہات کوبے نقاب کرنا ہے اور علمی مناقشہ کے ذریعے، ان پر ردوارد کرنا ہے۔ چنانچہ جان لیجئے ان لوگوں نے جس جس دلیل سے استدلال کیا ہے،وہ اس وقت تک مکمل قرار نہیں پاسکتا جب تک ان دلائل کے تعلق سے مندرجہ ذیل مقدمات ثابت نہ ہوجائیں۔ ہردلیل کی سند کاصحیح ہونا،اور اس کے متن کا نکارت سے پاک ہونا۔ محل استدلال اوروجہ استدلال کاواضح ہونا،نیز یہ کہ ایسی چیزیں جو ان دلائل سے لازم نہیں آرہیں،انہیں خوامخواہ لازم قرار دینا نا قابلِ اعتماد ہوگا۔ جس واقعہ سے استدلال کیاجائے،اس کے تعلق سے یہ بھی ثابت کیاجائے کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب کے بعدکا ہے۔ وہ دلیل محلِ نزاع سے خالی نہ ہو ،یعنی اس میں چہرہ کھولنے کا کوئی شرعی عذر موجود نہ ہو۔چہرہ کھلا رکھنے کے شرعی عذر درجِ ذیل ہیں: ۱۔ عورت کا بوڑھی ہونایا بوڑھی ہونے کے حکم میں ہونا،یا عورت کا لونڈی ہونا۔ ب۔اس کے چہرے کا کھل جانا کسی قصد وارادہ کے بغیر ہو۔ ج ۔ اس کا اپنے چہرے کو کھلارکھنا پیغامِ نکاح کی غرض سے ہو۔ د ۔ اس کا چہرہ اس لئے کھلاہو کہ اسے دیکھنے والا چھوٹا بچہ ہے۔ جس واقعہ سے استدلال کیاجائے وہ ایسا مخصوص واقعہ نہ ہوکہ جس کے عام ہونے کے حوالے سے اسباب مخفی ہوں۔ اس واقعہ کے تعلق سے یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ اس عورت کا کھلاچہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہو اور اس پر سکوت اختیار کرکے اس کی اباحت کا اقرار کیاہو۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |