Maktaba Wahhabi

2 - 222
چونکہ دین مکمل ہوچکا ہے،لہذا اللہ تعالیٰ نے مکمل دین میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے: [يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ ]( البقرۃ:۲۰۸) یعنی:اے ایمان والو!اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ جب ہم تکمیل دین کی بات کریں گے تو اس تکمیل سے مراد کسی خاص شعبہ کی تکمیل نہیں ہوگی،بلکہ تمام شعبوں میں دین کو کامل واکمل ماننا پڑے گا،لہذا ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارا دین تمام شعبہ جات، مثلاً: عقائد، اعمال، اخلاقیات، سلوکیات، سیاسیات، معاملات اور معاشیات وغیرہ میں مکمل ہے اوراس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں ہے۔ اخلاقیات کی دین میں بڑی اہمیت ہے،بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکارمِ اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجے گئے،اور اعلیٰ مکارمِ اخلاق پر فائز ہونا آپ کا خصوصی وصف ہے: [وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ] (القلم:۴) مکارمِ اخلاق میں’’حیاء‘‘ ایک عظیم خصلت کے طور پر شمارہوتی ہے،احادیث میں کہیں تویوںفرمایاگیاہے: (الحیاء من الإیمان)اورکہیں یہ الفاظ وارد ہیں: (والحیاء شعبۃ من الإیمان)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ میں یہ وصف نمایاں طور پر مذکور ہے:(کان رسول االلّٰه صلی االلّٰه علیہ وسلم أشد حیاء من العذراء فی خدرھا)یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنواری عورت سے بھی زیادہ باحیاء تھے جو اپنے پردے میں ڈھکی چھپی ہوتی ہے۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ایک عورت کس قدر حیاء کی محتاج ہے،اسی لئے ہر عام وخاص کی زبان سے یہ جملہ سننے کو ملتاہے کہ حیاء عورت کا زیورہے۔ ایک خاتون کے باحیاء وحشمت ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ان تمام شرعی واخلاقی حدود کوتھامے رکھے جواسے مواقعِ فتنہ وتہمہ سے دوررکھیں،اور اس بات میں
Flag Counter