کی بندی!اپنا چہرہ کھول دو،چہرہ کھلا رکھنا اسلام سے ہے اور چہرے پر نقاب ڈالنا فسق وفجورہے۔ جواب: یہ حدیث بے اصل اورمنکرہے ؛حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے،الاصابۃ میں مندوس بنت عمرو کے ترجمہ میںابن الاثیر کے حوالے سے فرمایا ہے:مندوس کی بیٹی، جس کانام قریبہ ہے نے اپنی والدہ سے روایت کیاہے،اوربطورِ مثال اسی حدیث کا ذکر کیا ہے اور اسے ابن مندہ اور ابونعیم کی طرف منسوب کیا ہے،جبکہ میںنے یہ حدیث ان دونوں میں سے کسی کتاب میں نہیں پا ئی۔ قریبہ کی اپنی والدہ سے روایت کردہ یہ حدیث بے شمار قولی اور تقریری احادیث اور لاتعداد فعلی آثار،جوچہرے کے نقاب کی مشروعیت پر دال ہیں، کی مخالفت کررہی ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ محرم عورت کیلئے نقاب اور دستانوں کااستعمال ممنوع ہے،جو اس بات کی دلیل ہے کہ غیر محرم عورتیں یہ دونوں چیزیں استعمال کیا کرتی تھیں،جو اس امر کی متقاضی ہے کہ عورتوں کیلئے اپنے چہروں اورہاتھوں کو ڈھانپنا ضروری ہے۔[1] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |