Maktaba Wahhabi

97 - 702
صاحب اشاعتہ السنہ نے (جلد ۲۰ ص ۳۴۹) میں بعنوان ’’اہل حدیث میں جعلی پیری مریدی‘‘ متعلق بیعت توبہ کی بحث طویل لکھا ہے اور جناب مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی امرتسری کے بارہ میں یوں لکھا ہے: ’’مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی پر بھی یہی بدگمانی کی جاتی ہے کہ انھوں نے مرزا کو دیکھ کر پیری مریدی کو وسعت دی ہے اور اپنے امام ہونے کی شہرت پسند کرتے ہیں ۔‘‘ پس اب سوال یہ ہے کہ بیعت توبہ جائز ہے یا نہیں ؟ اور جناب مولوی عبدالجبار صاحب اس امر کے اہل ہیں یا نہیں کہ ان پربیعت کی جائے اور مولوی صاحب غزنوی کی تشبیہ مرزا کے ساتھ صحیح ہے یا نہیں ؟ جواب : بیعتِ توبہ منجملہ مستحبات کے ہے اور اس کے استحباب پر بہت سے ادلہ شرعیہ قائم ہیں ۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چونکہ اس کا بیان مکمل طور پر فتح البیان۔ تفسیر سورۃ الفتح میں عمدہ طور سے موجود ہے۔ اس لیے یہاں اس کی تفصیل نہیں کی گئی۔ اگر زیادہ تحقیق طلب ہو تو فتح البیان اور قوت القلوب اور عوارف المعارف اور رسالہ القشیریہ اور اتحاف السادۃ المتقین کو دیکھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کی اس میں پوری بحث ہے اور آخذِ بیعت کے لیے جتنے شرائط چاہیے، یعنی ’’کونہ عالماً بالکتاب والسنۃ، آمراً بالمعروف، ناھیاً عن المنکر، وکونہ صاحب العدالۃ والتقوی والصدق والضبط، وکونہ زاھداً في الدنیا، راغبا في الآخرۃ مواظباً علی الطاعات المؤکدۃ والأذکار المأثورۃ، وأن یکون صحب العلماء بالکتاب والسنۃ وتأدب بہم طویلاً وأخذ عنہ العلم والفضل وغیر ذلک من الشروط الصحیحۃ‘‘ [یعنی کتاب و سنت کے عالم ہوں ۔ وہ اچھائی کا حکم دیتے ہوں اور برائیوں سے منع کرتے ہوں ۔ وہ تقویٰ اور عمدہ اخلاقی خوبیوں کے مالک ہوں اور سچ کے پابند ہوں ۔ حفظ میں اچھا مقام رکھتے ہوں ۔ انھوں نے دنیا کے معاملات میں زُہد اختیار کیا ہوا ہو اور آخرت کے بارے میں بہت سوچ و فکر اور کوشش کرنے والے ہوں ۔ جو فرض عبادتیں ہیں اور دین کے اہم اور ضروری مسائل ہیں ، ان کی پابندی کرنے والے ہوں اور جو صحیح احادیث سے ثابت شدہ ذکر اور دعائیں ہیں ، ان کی پابندی کرنے والے ہوں ۔ جنھوں
Flag Counter