Maktaba Wahhabi

82 - 702
اور مخلوق کی نذر ماننا جائز نہیں ہے، کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہوسکتی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس کے لیے نذر مانی گئی ہے، وہ میت ہے اور میت ملکیت کا حق نہیں رکھتا۔ نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نذر ماننے والے نے گمان کیا کہ مردہ اللہ کے بالمقابل امور میں تصرفات کرسکتا ہے اور یہ عقیدہ کفر ہے] پس معلوم کرنا چاہیے کہ ذبح کرنا واسطے غیر خدا کے اور تقرب چاہنا اسی غیر خدا سے، اگرچہ وقتِ ذبح کے بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کے ذبح کرے، حرام ہے اور گوشت اس کا نجس اور ذابح اس کا مرتد ہے۔ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے: { اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} [البقرۃ: ۱۷۳] [تم پر مردہ اور خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو، حرام ہے] امام فخر الدین رازی نے تحت آیت کریمہ لکھا ہے: ’’قال ربیع بن أنس و ربیع بن زید: یعني ما ذکر علیہ اسم غیر اللّٰه، وھذا القول أولی، لأنّہ أشد مطابقۃ للفظ، قال العلماء: لو أن مسلماً ذبح ذبیحۃ، و قصد بذبحھا التقرب إلی غیر اللّٰه، صار مرتدّاً، وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد‘‘[1] انتھی [ربیع بن انس اور ربیع بن زید نے کہا ہے: یعنی جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہی قول زیادہ مناسب ہے، کیونکہ یہ لفظ سے سب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ علما نے فرمایا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی ذبیحہ کیا اور اپنے اس ذبیحے سے غیر ا للہ کے تقرب کا ارادہ کیا تو وہ مرتد ہوگیا اور اس کا ذبیحہ بھی مرتد کا ذبیحہ ہوگیا] مولانا شاہ عبدالعزیز ’’تفسیر فتح العزیز‘‘ میں فر ماتے ہیں : ’’ہر کہ بذبح جانور تقر ب لغیر اللہ نماید ملعون است، خواہ در وقت ذبح نام خدا گیرد یانے۔
Flag Counter