Maktaba Wahhabi

477 - 702
کی تخصیص کی وجہ سے بدعت ہے] اور کتا ب مدخل شیخ ابن الحاج مالکی کی جلد دوم ’’فصل في المصافحۃ خلف الصلوٰۃ‘‘ میں اس کی پوری بحث ہے اور عبارت اس کی اوپر گزری۔ اور بھی مدخل دوم ’’فصل في سلام العیدین‘‘ میں ہے: ’’وأما المعانقۃ فقد کرھھا مالک، وأجازھا ابن عیینۃ، أعني عند اللقاء من غیبۃ کانت، وأما في العیدین لمن ھو حاضر معک فلا، و أما المصافحۃ فإنھا وضعت في الشرع عند لقاء المؤمن لأخیہ، وأما في العیدین علی ما اعتادہ بعضھم عند الفراغ من الصلاۃ یتصافحون فلا أعرفہ‘‘[1] انتھی [رہا معانقہ تو اس کو مالک نے مکروہ قرار دیا ہے اور ابن عیینہ نے جائز قرار دیا ہے، یعنی اس وقت جب کہ غیابت کے بعد ملاقات ہو۔ رہا عیدین کے موقع پر معانقہ، تو اس شخص سے جو تمھارے ساتھ نماز میں شریک تھا تو یہ جائز نہیں ، کیونکہ شرع نے ایک مومن کے اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت کے لیے مصافحہ مشروع کیا ہے اور عیدین کے موقع پر جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرتے ہیں ، تو اس سلسلے میں کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔ ختم شد] یعنی معانقہ و مصافحہ بعد صلوٰۃ عیدین کے اس کی اصلیت ہم شرع سے نہیں پہچانتے ہیں ۔ پھر علامہ ابن الحاج نے بعض علماء فاس ملک مغرب کا حال لکھا کہ ’’أنھم کانو إذا فرغوا من صلاۃ العید صافح بعضھم بعضا‘‘ [ وہ لوگ جب عید کی نماز سے فارغ ہوتے تو ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے] اس کے بعد علامہ ابن الحاج نے ان لوگوں کے اس فعل کو رد کیا اور فر مایا: ’’فإن کان یساعدہ النقل عن السلف فیا حبذا، وإن لم ینقل عنھم فترکہ أولی‘‘[2] [ اگر اس عمل کو سلف کے عمل سے تقویت ملتی ہے تو بہت مبارک ہے، لیکن اگر سلف سے اس بابت کچھ منقول نہیں ہے تو اس کا ترک کردینا اولیٰ ہے]
Flag Counter