Maktaba Wahhabi

226 - 702
’’عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰه عنہ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : لا تزوج المرأۃ المرأۃ و لا تزوج المرأۃ لنفسھا‘‘ رواہ ابن ماجۃ والدارقطني، ورجالہ ثقات[1] [حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت، عورت کا نکاح نہیں کرسکتی اور نہ عورت خود اپنی شادی کرسکتی ہے۔اس کی روایت ابن ماجہ اور دار قطنی نے کی ہے۔ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں ] اور اس کی شرح ’’سبل السلام‘‘ میں ہے: ’’فیہ دلیل علی أن المرأۃ لیس لھا ولایۃ في الإنکاح لنفسھا ولا لغیرھا‘‘[2] [ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو اپنا نکاح کرانے یا دوسرے کا نکاح کرانے میں ولایت کا حق نہیں ہے] پس ان وجہوں سے ان دونوں کے عدم رضا کا اثر اس نکاح پر نہیں پڑسکتا ہے اور جن علماء کے نزدیک عصبات کے ما سوا ذوی الفرائض وذوی الارحام بھی ولی ہوسکتے ہیں تو ان کے نزدیک بھی عصبات مقدم ہیں ذوی الارحام وغیرہ پر، اور نانی تو کسی حال میں ولی نہیں ہوسکتی ہے۔ کما مر الآن۔قال علي القاری الحنفي: ’’الولی ھو العصبۃ علی ترتیبہم بشرط حریۃ وتکلیف، ثم الأم، ثم ذوالرحم الأقرب فالأقرب، ثم مولی الموالات ثم القاضي‘‘ ھکذا في عون المعبود۔[3] [علی الترتیب عصبہ ولی ہوتا ہے ،حریت اور استطاعت کی شرط کے ساتھ ، پھر ماں ہوتی ہے، پھر قریبی رشتے دار اور اس سے قریب، پھر موالی ، پھر قاضی۔ عون المعبود میں ایسا ہی ہے] اس قول میں لفظ ’’ثم الأم‘‘ کا اس سے ماں کا ولی ہونا بعد عصبات کے ثابت ہوتا ہے، لیکن مسئول عنہا میں ماں کا عدم ہونا ثابت ہے۔ اس کے ماسوا اگر ماں زندہ بھی ہوتی تو بھی ولی نہیں ہوسکتی تھی، حدیث شریف کی رو سے۔ إذا جاء نھر رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم بطل نھر معقل! خلاصہ ان سب عبارتوں کا یہ ہے کہ اس ہندہ کے چچا نے ہندہ کی جو شادی کرا دی، یہ شادی
Flag Counter