Maktaba Wahhabi

199 - 702
عدتھا ثلاثۃ أشھر قبل البلوغ‘‘[1]انتھی [کسی شخص کا اپنے چھوٹے بچوں کا نکاح کروانا، اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بموجب: ’’اور وہ خواتین جو حیض کی عمر کو نہیں پہنچی ہیں ۔‘‘ تو بلوغت سے قبل ان کی عدت تین ماہ ہے] دوسرا استدلال نا بالغہ کی صحتِ نکاح پر اس آیت کریمہ سے ہے۔ قال اﷲ تعالیٰ: { وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ۔۔۔} [النساء: ۳] [یعنی اگر تم لوگوں کو یتیم بچیوں سے نکاح کر نے میں یہ خوف ہو کہ ان میں قسط و انصاف نہ کر سکو تو دوسری عورتوں سے کرو جو تمہیں پسند ہوں ، دو عورتوں سے، خواہ تین عورتوں سے، خواہ چار سے] اس حکم کے مخاطب وہ اولیاء ہیں جن کی تولیت میں یتیموں کا جان و مال ہو۔ اس آیت کریمہ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اگر قسط و عدل کا یقین ہو تو ان اولیاء کو نا بالغہ یتیموں سے نکاح کر لینا اور کر دینا درست ہے۔ پس باپ کا اپنی نا بالغہ کا نکاح کر دینا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔ اس آیت میں یہ شبہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ {الْیَتٰمٰی} سے مراد وہ یتیم عورتیں ہیں جو اب بالغ ہوچکی ہیں ۔ بدو وجہ: اولاً: اس لیے کہ اولاً شرع میں یتیم کا حقیقتاً اطلاق نابالغ پر ہوتا ہے اور بالغ پراس کااطلاق مجازاً ہے۔ پس جب تک معنی حقیقی ممتنع نہ ہو، مجازی معنی نہیں لیا جا سکتا ہے۔ وقال شیخ شیخنا العلامۃ الآلوسي في تفسیرہ روح المعاني: ’’وفي الآیۃ دلیل لجواز نکاح الیتیمۃ، وھي الصغیرۃ، إذ یقتضي جوازہ إلا عند خوف الجور‘‘[2] انتھی [اس آیت کریمہ میں چھوٹی نابالغ یتیم لڑکی کے نکاح کے جواز کی دلیل ہے، جو اس کے جواز کی مقتضی ہے سوائے ظلم و جور کے وقت]
Flag Counter