Maktaba Wahhabi

100 - 702
مختصر منتھی الأصول من المالکیۃ، و المحقق عضد الدین من الشافعیۃ۔ و ذکر ابن أمیر الحاج في التقریر شرح التحریر: إن القرون الماضیۃ من العلماء أجمعوا علی أنہ لا یحل لحاکم ولا مفت بتقلید رجل واحد بحیث لا یحکم و لا یفتي في شيء من الأحکام إلا بقولہ‘‘ انتھی [کسی متعین مجتہد کی تقلید کے واجب ہونے پر نہ کوئی شرعی دلیل ہے اور نہ عقلی، جیسا کہ حنفی علما میں سے شیخ ابن الہمام نے فتح القدیر میں اور اپنی تحریر الاصول نامی کتاب میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مالکی علما میں سے شیخ ابن عبدالسلام نے مختصر منتہی الاصول میں اور شافعی علماء میں سے محقق عضد الدین نے تقلید کے عدم وجوب کی صراحت کی ہے اور ابن امیر الحاج نے ’’التقریر شرح التحریر‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ قرون ماضیہ کے علما نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ کسی حاکم اور مفتی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایک آدمی کی اس طرح تقلید کریں کہ حاکم اس کے قول کے بغیر حکم صادر نہ کرے اور مفتی اس کے قول کے بغیر فتویٰ جاری نہ کرے] جیسا کہ علامہ قرافی نے تنقیح میں فرمایا: ’’وأجمع الصحابۃ علی أن من استفتی أبا بکر وعمر رضی اللّٰه عنہما فلہ أن یستفتي أبا ھریرۃ ومعاذ بن جبل رضی اللّٰه عنہما وغیرھما، و یعمل بقولھما من غیر نکیر‘‘[1] انتھی ’’اور اجماع کیا ہے اصحاب رضی اللہ عنہم نے اس بات پر کہ مثلا جس شخص نے مسئلہ پوچھا حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے، وہ مسئلہ پوچھے حضرت ابوہریرہ و معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے اور عمل کرے قول پر ان دونوں کے بغیر نکیر کے۔‘‘ پس معلوم ہوا کہ کوئی شخص حنفی مذہب بغیر تلہی فی المذہب کسی مسئلہ پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عمل کرے، اگرچہ کوئی ضرورت داعی بھی اوپر عمل کرنے مسئلہ مذہب شافعی رحمہ اللہ کے نہ ہو، جائز و درست ہے۔ مثلاً کوئی حنفی المذہب اگر وتر ایک رکعت یا پانچ رکعت محض باتباع سنت کے پڑھے تو اس کو ثواب ہوگا اور معاذاللہ اڑے رہنا اوپر اس قول امام کے جو صریح مخالف حدیث صحیح غیر منسوخ و غیر مؤول کے ہو، باوجود قدرت رجوع کرنے کے طرف ان احادیث صحیحہ کے کہ مخالف قول امام کے ہیں
Flag Counter