((لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہَ عَنْکَ۔)) [1] ’’میں ضرور تیرے لیے معافی مانگوں گا جب تک کہ مجھے اس سے منع نہیں کردیا جاتا۔‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے لیے استغفار کرنے سے منع فرمادیا: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ ﴿کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ،﴾ (التوبہ:۱۱۳) ’’اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔‘‘ اور درج ذیل آیت ابوطالب کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے: ﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ،﴾ (القصص:۵۶) ’’بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘ الغرض اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے۔ چنانچہ وہ اسے اس کی توفیق دے دیتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق نہیں۔ چنانچہ اسے وہ سزا کے طور پر اس سے محروم رکھتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہدایت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا ط اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن،﴾ (یونس:۹۹) |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |