Maktaba Wahhabi

120 - 440
تاویل: اس سے مراد کسی لفظ کو اس کے صحیح معنی سے کسی دوسرے غیر صحیح معنی کی طرف پھیرنا ہے۔ لہٰذا گمراہ لوگ نصوص کو ان کے ظاہر سے دوسرے معانی کی طرف پھیرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں۔ ’’ید‘‘ کا معنی قدرت، ’’وجہ‘‘ کا معنی ذات باری تعالیٰ اور ’’استواء‘‘ کا معنی عرش پر بلند ہونا ہے۔ یہ نصوص چونکہ قرآن و سنت میں ثابت ہیں اور وہ ان نصوص کو رد نہیں کرسکتے اس لیے وہ ان کی تاویل (غلط معنی بیان کرنے) کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ وَلَا نُشَبِّہُہُ بِصِفاتِ الْمَخْلُوْقِیْنَ (۱) وَلَا بِسَماتِ الْمُحْدَثِین۔ ترجمہ…: نہ ہی ہم اسے مخلوق کی صفات کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور نہ ہی مخلوقات کے خصائص سے۔ تشریح…: ہم اس کی تردید و تاویل نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں تشبیہ دیتے ہیں جیسا کہ گمراہوں کا دوسرا گروہ ان دلائل کو ثابت کرتا ہے۔ وہ نہ تو ان کے ثبوت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور نہ ہی معانی کے بارے میں۔ بلکہ وہ انہیں مخلوق کی صفات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انہیں مشبہہ اور ممثلہ کہا جاتا ہے اور یہ بھی تعطیل کی طرح باطل مذہب ہے۔ صحیح مذہب: حق مذہب اسماء و صفات کو ان کے الفاظ اور معانی کے ساتھ، کسی تاویل و تشبیہ کے بغیر ثابت کرنا ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ،﴾ (الشوریٰ:۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے مثل کی نفی کی ہے اور اپنے لیے سماعت و بصارت کا اثبات کیا ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ مخلوق میں سے کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔
Flag Counter