Maktaba Wahhabi

217 - 440
آپ اللہ تعالیٰ کو دیکھ تو سکیں گے لیکن اس کا ادراک یعنی احاطہ نہیں کرسکتے۔ دوسری دلیل: وہ اس بات کو نفی دیدار کی دلیل بناتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ’’لَنْ تَرَانِیْ‘‘ یعنی تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ﴿قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰنِیْ﴾ (الاعراف:۱۴۳) ’’تو اس نے کہا: اے میرے رب ! مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں، فرمایا: تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘ جواب…: ہم کہتے ہیں یہ دنیا میں دیدار الٰہی کی نفی ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی تھی کہ وہ دنیا میں اسے اپنا دیدار کروائے لیکن دنیا میں کوئی اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتا۔ نیز جب ’’لن‘‘ کے ساتھ نفی ہو تو یہ ہمیشہ کی نفی نہیں ہوتی۔ بلکہ کچھ وقت تک کے لیے ہوتی ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہود کو یہ فرمانا ہے۔ ﴿قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ، وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدً ا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ،﴾ (البقرہ:۹۴تا۹۵) ’’کہہ دے! اگر آخرت کا گھر اللہ کے ہاں سب لوگوں کو چھوڑ کر خاص تمھارے ہی لیے ہے تو موت کی آرزو کرو، اگر تم سچے ہو۔ اور وہ ہر گز اس کی آرزو کبھی نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی دنیا میں موت کی تمنا کی نفی کی ہے۔ لیکن آخرت میں وہ موت کی تمنا کریں گے اور کہیں گے: ﴿یَامَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ﴾ (الزخرف:۷۷)
Flag Counter