Maktaba Wahhabi

262 - 440
جہنم سے نکالنے کا سبب بن جائے گا۔ اور یہ ایمان کی فضیلت کی دلیل ہے کہ اس قدر ایمان رکھنے والا بھی ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اور بلاشبہ لوگوں کے ایمان برابر نہیں ہیں۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان تمام لوگوں کے ایمان کے برابر ہو، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان اور ایک فاسق مسلمان کا ایمان برابر ہوں۔ مُرجئہ کے نزدیک ایمان تصدیق کا نام ہے۔ اس کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور اس میں درجات نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان اور ایک فاسق ترین شخص کا ایمان برابر ہے۔ حالانکہ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ مُرجئہ کے خلاف اہل سنت والجماعت سلفی اہل حق کا مؤقف یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان برابر درجے کا نہیں ہوتا۔ اس میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ کبھی مضبوطی اور کبھی کمزوری آتی ہے۔ کبھی کامل اور کبھی ناقص ہوتا ہے۔ مُرجئہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ’’إرجاء‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے تاخیر۔ مُرجئہ چونکہ عمل کو ایمان سے مؤخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایمان محض تصدیق بالقلب کا نام ہے۔ اہل ایمان اصل ایمان میں برابر ہیں، ان میں درجہ بندی نہیں۔ اس لیے ان کو مرجئہ کہا جاتا ہے۔ مُرجئہ کے باہم بھی بہت سے فرقے ہیں اور ہر فرقہ کے اقوال مختلف ہیں۔ پہلا قول: یہ ہے کہ ایمان محض قلبی معرفت کا نام ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے وہ مومن ہے۔ یہ جہمیہ کا قول ہے۔ اس قول کے مطابق ابلیس (شیطان) بھی مومن ہے۔ کیونکہ وہ اپنے رب کو پہچانتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ﴿قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ﴾ (الحجر:۳۹) ’’اس نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے۔‘‘ ان کے نزدیک فرعون اور باقی تمام کافر بھی مومن ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے رب کو پہچانتے تھے لیکن محص تکبر اور عناد کی وجہ سے ظاہری طور پر انکار کرتے تھے۔ ان میں سے ایک بھی ایسا
Flag Counter