Maktaba Wahhabi

66 - 440
(ذرا سوچو) دن، رات اور کائنات کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب ہوگا ’’اللہ ربّ العالمین‘‘ تو وہ اس پر بھی قادر ہے کہ جیسے چاہے اترے۔ اگرچہ ثلث اللیل کا وقت مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے لیکن یہ ہماری نسبت سے ہے، اللہ کی نسبت سے نہیں۔ کیونکہ وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ لہٰذا ہم اس کی کیفیت نزول کے پیچھے نہیں پڑیں گے۔ اسی طرح ہم یہ نہیں کہیں گے: اسے قیامت کے دن کیسے دیکھا جائے گا؟ (وہ قیامت کے دن کیسے دکھائی دے گا؟)۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے۔ بلکہ صرف اس کا اثبات کریں گے کہ وہ بالکل واضح طور پر دکھائی دے گا جیسے چودھویں رات کا چاند دکھائی دیتا ہے اور جیسے بادل نہ ہونے کی صورت میں سورج چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں لیکن رؤیت کی کیفیت پر بحث نہیں کرتے۔ کیونکہ اسے اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے: ﴿وَجَآئَ رَبُّکَ﴾ (الفجر:۲۲)… ’’اور تیرا رب آئے گا۔‘‘ ہم اس بحث میں ہی نہیں پڑیں گے کہ وہ کیسے آئے گا؟ لیکن ہم اثبات کرتے ہیں کہ وہ آئے گا جیسا کہ اس کے جلال کے لائق ہے۔ الغرض ہم صفات پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے معنی کو جانتے ہیں لیکن اس کی کیفیت پر بحث نہیں کرتے۔ اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ولا کیف‘‘۔ ولا معنی: اس سے مراد معنی حقیقی کی نفی نہیں کیونکہ یہ معنی تو معروف ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ معنی ہے جس کے ساتھ بدعتی لوگ اس کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ ہے تاویل۔ جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اَلْإِسْتِوَائُ مَعْلُوْمٌ وَالْکَیْفُ مَجْہُوْلٌ، وَالْإِیْمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ وَالسّؤالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ۔‘‘ [1] یعنی اللہ تعالیٰ کا عرش پر استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت معلوم نہیں، اس پر ایمان واجب ہے اور کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔
Flag Counter