Maktaba Wahhabi

233 - 440
اس میں بھی کوئی حکمت ہوتی ہے۔ حکمت سے مراد: ’’چیزوں کو ان کے اصل مقام پر رکھنا۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اسے ہی دی ہے جو اس کے قابل تھا۔ اور گمراہی میں اسے ہی رکھا ہے جو گمراہی کے قابل تھا۔ جو جنت کے قابل ہے اسے حصول جنت کی اور جو جہنم کے قابل ہے اسے دخول جہنم کی توفیق دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی مخلوق کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اس سے ہدایت اور توفیق مانگے، اپنے عمل اور اپنی ذات پر بھروسہ نہ کرے۔ بلکہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردے اور اس بات سے ڈرتا رہے کہ کہیں اسے اللہ گمراہ نہ کردے یا اس کے دل کو ٹیڑھا نہ کردے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ، وَطَاعَتِکَ۔ فَتَقُوْلُ لَہٗ عَائِشَۃُ: إِنَّکَ تُکْثِرُ أَنْ تَقُوْلَ: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ؛ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَی دِیْنِکَ وَطَاعَتِکَ۔ فَیَقُوْلُ: وَمَا یُؤْمِنِّیْ وَقُلُوْبُ الْعِبَادِ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ، إِذَا شَائَ أَنْ یُّقَلِّبَ قَلْبَ عَبْدٍ قَلّبَہُ۔)) ’’اے اللہ! اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین اور اطاعت پر جمائے رکھ۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: ’’آپ کثرت سے یہ دعا کیوں پڑھتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’جبکہ انسانوں کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ وہ جب کسی بندے کے دل کو پھیرنا چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ تو کون سی چیز مجھے اس دعا سے بے خوف کرے۔‘‘[1]
Flag Counter