Maktaba Wahhabi

169 - 440
، بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ،﴾ (الشعراء:۱۹۳تا۱۹۵) ’’جسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔ تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو جائے۔ واضح عربی زبان میں۔‘‘ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ: یعنی الروح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ الأمِینُ: حضرت جبریل علیہ السلام کی صفت امین ہونا اس لیے بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے امین ہیں۔ وہ اس میں کمی بیشی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اسی طرح اسے پہنچاتے تھے جیسے اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو امانت داری سے متصف قرار دیا۔ اس سے قرآن کریم کی سند میں پختگی آتی ہے کہ اسے جبریل امین نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی امت کو پہنچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے اسے آپ سے روایت کیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے۔ ﴿اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ، وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ، وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ ط قَلِیْلًا مَا تَذَکَّرُوْنَ، تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ، لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ،﴾ (الحاقہ:۴۰تا۴۶) ’’بلاشبہ یہ (قرآن) یقینا ایک معزز پیغام لانے والے کا قول ہے۔ اور یہ کسی شاعرکا قول نہیں، تم بہت کم ایمان لاتے ہو۔ اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو۔ (یہ) جہانوں کے رب کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔ اور اگر وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا۔ تو یقینا ہم اس کو دائیں ہاتھ سے (قوت سے) پکڑتے۔ پھر یقینا ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔‘‘ (اور اسے ہلاک کردیتے۔) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ: الْوَتِین سے مراد رگِ جان ہے۔ یعنی اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بارے میں کوئی
Flag Counter