Maktaba Wahhabi

218 - 440
’’اے مالک! تیرا رب ہمارا کام تمام ہی کردے۔ ‘‘ یعنی وہ آگ سے نجات حاصل کرنے کے لیے موت کی تمنا کریں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دنیا کی حالت یہ بیان کی ہے کہ: ﴿وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًا﴾ ’’وہ اس (موت) کی ہرگز تمنا نہیں کریں گے۔‘‘ لہٰذا یہ دلیل ہے کہ ’’لن‘‘ ہمیشہ کی نفی کرنے کے لیے نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے ’’لن ترانی‘‘ کہا ہے: ’’لَا تَرَانِیْ‘‘ نہیں کہا۔ کیونکہ دنیا میں لوگوں کے اجسام کمزور ہوتے ہیں اور وہ رؤیت باری تعالیٰ کے متحمل نہیں ہوتے۔ جبکہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اپنے دیدار کی قوت بخشے گا۔ دنیا کے تمام معاملات آخرت کے معاملات سے یکسر مختلف ہیں۔ نقطۂ لطیفہ: یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ بعض شارحین کہتے ہیں: دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار محال ہے۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار محال نہیں بلکہ ممکن ہے۔ البتہ لوگوں میں اس کی طاقت نہیں۔ اسی لیے تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کی درخواست کی۔ اگر دنیا میں دیدار الٰہی ممکن نہ ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام کے لیے مناسب نہ تھا کہ وہ ایک محال چیز کا سوال کریں۔لہٰذا دنیا میں رؤیت باری تعالیٰ محال نہیں۔ ذاتی طور پر رؤیت تو ممکن ہے۔ البتہ لوگوں کے حواس اس زندگی میں کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے لیے ناممکن ہے۔ ***** وَیَزُوْرُوْنَہُ (۱) وَیُکَلِّمُہُمْ وَیُکَلِّمُوْنَہُ (۲) قَالَ اللّٰہ تَعَالَی ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ، اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ،﴾ (القیامہ:۲۲تا۲۳) (۳) ترجمہ…: اور (اہل ایمان آخرت میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے باتیں کرے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
Flag Counter