Maktaba Wahhabi

117 - 440
فَہٰذَا وَمَا أَشْبَہَہُ مِمَّا صَحّ سَنَدُہُ (۱) وَعُدلَتْ رُواتُہُ (۲) نُؤْمِنُ بِہِ، وَلَا نَرُدُّہُ وَلَا نَجْحَدُہُ (۳) وَلَا نَتَأَوَّلُہُ بِتَأْوِیْلٍ یُخَالِفُ ظَاہِرَہُ۔ (۴) ترجمہ…: الغرض یہ اور اس جیسی دوسری روایات جن کی سند صحیح اور راوی عادل ہیں۔ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تردید اور انکار نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی کوئی ایسی تاویل کرتے ہیں جو اس کے ظاہر کے خلاف ہو۔ تشریح…: (۱) یعنی یہ احادیث جن میں اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات بیان ہوئی ہیں اور ان جیسی دوسری احادیث جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات بیان ہوئی ہیں ان کی سند کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ صحیح حدیث: وہ روایت ہوتی ہے جس کو عادل اور مکمل ضبط والے راویوں نے سند کے شروع سے آخر تک اپنے جیسے راویوں سے بیان کیا ہو اور وہ علت و شذوذ سے بھی محفوظ ہوں۔ یہ پانچ شروط جس حدیث میں پائی جائیں وہ صحیح حدیث ہوتی ہے اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث میں اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت بیان ہوئی ہو تو اس پر ایمان لانا اور اس کا عقیدہ رکھنا فرض ہے۔ خواہ وہ حدیث متواتر ہو یا خبر واحد کیونکہ یہ بھی علم اور یقین کا فائدہ دیتی ہے۔ گمراہ لوگوں کا قول: گمراہ لوگ کہتے ہیں: ’’خبر واحد اگرچہ صحیح بھی ہو، ظن کا فائدہ دیتی ہے۔‘‘ یہ بات ان کے انکار میں علم کلام اور علم منطق کی ملاوٹ کا نتیجہ ہے۔ اگر ان کا ایمان اور سمجھ صحیح ہوتے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے بارے میں ایسی بات نہ کرتے۔ لیکن اگر سند صحیح نہ ہو تو وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ قدیم علماء کے نزدیک حدیث کی دو ہی قسمیں ہیں: صحیح یا ضعیف۔ ان کے نزدیک ’’حسن‘‘ بھی ’’صحیح‘‘ کی قسم میں ہی داخل ہے۔
Flag Counter