Maktaba Wahhabi

167 - 440
فصل سوم: قرآن کا اللہ تعالیٰ کے کلامِ حقیقی ہونے کا بیان وَمِنْ کَلَامِ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ الْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ۔ (۱) ترجمہ…: کلام الٰہی کا ایک حصہ قرآن عظیم بھی ہے۔ تشریح…: (۱) پہلے مؤلف رحمہ اللہ نے یہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت کلام بھی ہے جو کہ ایک فعلی صفت ہے۔ وہ جو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اس طرح کلام کرتا ہے کہ اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جیسا کہ جبریل علیہ السلام اس کو سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے اور موسیٰ علیہ السلام نے اسے بلاواسطہ سنا تھا۔ مؤلف رحمہ اللہ نے اس بحث کو تفصیل سے بیان کیا اور کتاب اللہ سے اس پر دلالت کرنے والی آیات ذکر کیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ حقیقی طور پر کلام کرتے ہیں جو کہ الفاظ اور آواز کا مجموعہ ہوتا ہے۔ سنائی دیتا ہے، تلاوت کیا جاتا ہے، لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ اس کا کلام نوع کے اعتبار سے تو قدیم ہے لیکن اگر ہر بات کو الگ الگ دیکھا جائے تو وہ حادث ہے[1] لہٰذا یہ کہنا قطعاً درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مطلق طور پر قدیم ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے گا کہ: اللہ تعالیٰ کا کلام نوع کے اعتبار سے تو قدیم ہے لیکن انفرادی طور پر حادث ہے، اس اعتبار سے کہ اس کا تعلق مشیت کے ساتھ ہے۔ وہ جو چاہتا ہے، جب چاہتا ہے بولتا ہے۔ چنانچہ کلام کی اسی قسم میں سے قرآن کریم بھی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے افراد میں سے ایک فرد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کے علاوہ کوئی شمار نہیں کرسکتا۔
Flag Counter