Maktaba Wahhabi

271 - 440
فصل ہفتم: ایمان بالغیب کا بیان ایمان کی تعریف اور اہل سنت کے نزدیک تعریف ایمان بیان کرنے کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے اس کے دلائل ذکر کیے۔ اب وہ بتارہے ہیں کہ ایمان کی ایک قسم ایمان بالغیب بھی ہے۔ ایمان بالغیب سے مراد ماضی یا مستقبل کے وہ معاملات ہیں جن کا لوگوں نے مشاہدہ نہیں کیا۔ اس لیے کہ یا تو وہ گزر چکے ہیں یا ایسے معاملات ہیں جو صحیح احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن ابھی رونما نہیں ہوئے۔ ان دونوں قسم کی باتوں میں عقل کا کوئی دخل نہیں بلکہ ان میں محص نقل پر ہی اعتماد کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نقل کردہ سچی خبریں ہیں۔ چنانچہ ماضی یا مستقبل کے جن غیبی معاملات کی اللہ ربّ العالمین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے ان سب پر ایمان لانا اور اپنی عقل و فہم کو ان میں دخل دیے بغیر ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا واجب ہے۔ کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری عقل و فکر سے بالاتر ہیں۔ ان کی بنیاد محض اللہ و رسل کی خبر کی تصدیق و تسلیم پر ہے۔ اصل ایمان تو ہے ہی ایمان بالغیب۔ ظاہری باتوں کو ماننا تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے ایمان کہا جاتا ہے یعنی جو چیز مشاہدہ میں آجائے اور دکھائی دے اس کو تو ہر کوئی مان لیتا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی ایمان نہیں ہے۔ اسی لیے جب قیامت آجائے گی تو اس وقت کسی کا ایمان لانا قابل قبول نہ ہوگا۔ یا جب موت کا وقت آجاتا ہے اور انسان ان غیبی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے جو اسے بتائی جاتی تھیں تو اس وقت ایمان مقبول نہیں ہوتا۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ۔))
Flag Counter