Maktaba Wahhabi

213 - 440
’’اور کیا انھوں نے نگاہ نہیں کی آسمانوں اور زمین کی عظیم الشان سلطنت میں۔ ‘‘ (یعنی اُنہوں نے کیا غور وفکر نہیں کیا؟) یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر سے کام نہیں لیا؟ خلاصۂ بحث: اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ’’نظر‘‘ کو بذات خود متعدی کیا جائے تو اس کا معنی توقف و انتظار ہوتا ہے۔ جب ’’الی‘‘ کے ساتھ متعدی کیا جائے تو اس کا معنی آنکھوں کے ساتھ دیکھنا ہوتا ہے۔ اور جب ’’فی‘‘ کے ساتھ متعدی کیا جائے تو اس کا معنی غور و فکر کرنا ہوتا ہے۔ ***** وَالْمُؤْمِنُوْنَ یَرَوْنَ اللّٰہَ تَعَالَی بِأَبْصَارِہِمْ۔ (۱) ترجمہ…: اور اہل ایمان اپنی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ تشریح…: (۱) مؤلف رحمہ اللہ نے ’’بأبصارہم‘‘ کا لفظ بول کر ان لوگوں کا رد کردیا ہے جو کہتے ہیں دیدار الٰہی سے مراد یہ ہے: اپنے دل کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ یا وہ اس کی نعمتوں کو دیکھیں گے یا اس کی جنت کو دیکھیں گے۔ حالانکہ یہ کلام اللہ کی تحریف ہے۔ ایسی تاویلات باطل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں کے ساتھ حقیقی طور پر دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں یہ اعزاز بخشے گا کہ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ دنیا میں اس کی عبادت کرتے رہے لیکن اسے دیکھ نہ سکے۔ محض اس کی کائنات اور قرآن میں موجود نشانیوں اور دلائل کو دیکھ کر ایمان لائے اور ایمان و تصدیق کے ساتھ اس کی عبادت کرتے رہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں اس کا یہ بدلہ دیں گے کہ انہیں اپنا جلوہ دکھائیں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو واضح طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ بلکہ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی نشانیوں میں
Flag Counter