Maktaba Wahhabi

94 - 438
لیکن یہ محل کے اعتبار سے ہے یوں نہیں کہ اس میں ’’ویل‘‘ کی لغوی حقیقت کا بیان ہے کیونکہ عرب یہ لفظ قرآنِ مجید کے نزول سے پہلے بھی بولتے تھے۔ اس لیے ’’ویل‘‘ سے درحقیقت ہلاکت و بربادی مراد ہوتی ہے کہ ہائے میری بربادی، ہائے میرا عذاب، ہائے یہ غمناک لمحہ بھی میرے نصیب میں تھا۔ کفار بھی قیامت کا دن دیکھ کر کہیں گے: ہائے بربادی یہ جزا کا دن ہے، جس کا ہم انکار کرتے رہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کسی چیز سے ڈرایا جائے مگر وہ اس کی طرف التفات نہ کرے اور بے نیازی دکھائے۔ مگر جب وہ چیز سامنے آجائے تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور کہتا ہے کہ یہ تو وہی ہے جس سے مجھے خبردار کیا گیا تھا۔ ﴿يَوْمُ الدِّينِ ﴾ یوم عموماً طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب کے مابین وقت پر بولا جاتا ہے اور اس کی جمع ایام ہے، مگر اس کا اطلاق دن رات پر ہوتا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے ذکر میں ﴿ثَلَاثَ لَيَالٍ ﴾ [مریم: ۱۰] اور ﴿أَيَّامٍ ﴾ [آلِ عمران: ۴۱] آیا ہے، یعنی آپ تین راتیں، تین دن کلام نہیں کرسکیں گے۔ اور ﴿ الدِّينِ ﴾ سے مراد جزا اور بدلہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’الدین الجزاء فی الخیر والشر کما تدین تدان‘‘ یعنی دین جزا کو کہتے ہیں نیکی میں بھی اور بدی میں بھی، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’دین کے اور بھی معانی ہیں اور وہ ہیں عادت، عمل، حکم، حال، خلق، طاعت، قہر، الملۃ، الشریعۃ، الورع، السیاسۃ۔‘‘[1] اور جب ﴿ يَوْمُ الدِّينِ ﴾ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یومِ قیامت ہے
Flag Counter