فرماتے ہیں کہ ان کی جلد نومولود بچے کی طرح نرم و نازک ہو گئی تھی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایسے چوزے کی طرح ہوگئے تھے، جس پر بال نہ ہوں۔[1] ایک اشکال کا جواب: یہاں ایک اشکال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃالقلم میں تو فرمایا ہے: ﴿لَوْلَا أَنْ تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴾ [القلم: ۴۹] ’’اگر یہ نہ ہوتا کہ اسے اس کے رب کی نعمت نے سنبھال لیا تو یقینا وہ چٹیل زمین پر اس حال میں پھینکا جاتا کہ وہ مذمت کیا ہوا ہوتا۔‘‘ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یونس علیہ السلام کو چٹیل زمین میں نہیں پھینکا گیا۔ جب کہ اس آیت سے عیاں ہوتا ہے کہ انھیں چٹیل میدان میں پھینکا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس آیت میں مذمت کا ذکر نہیں صرف پھینکنے کا ذکر ہے جب کہ سورۃالقلم میں اللہ کی رحمت کی بنا پر ان سے مذمت کے ساتھ پھینکے جانے کی نفی ہے۔ اس سے علامہ آلوسی کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یونس علیہ السلام معزز ومحترم تھے بے اعتنائی کا یہاں کوئی تصور نہیں جو بظاہر لغوی اعتبار سے سمجھا جا سکتا ہے۔ دوسرا اشکال اور اس کا جواب: حضرت یونس علیہ السلام نے قوم سے مایوس ہو کر بلا اجازت ہجرت کی تھی جو ان کی اجتہادی خطا تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔ اجتہادی غلطی پر تو مجتہد کو یک گونا اجر و ثواب ملتا ہے۔ مگر وہ تو مجتہد ہی نہیں اللہ تعالیٰ |