حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بڑی آزمایش میں بھی پورا اُترے۔ یہ آزمائشیں رفع درجات کے لیے تھیں جن کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں تمام آنے والوں کے لیے امام و پیشوا بنا دیا: ﴿ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ﴾ [البقرۃ:۱۲۴] اور آنے والوں کو ملتِ ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے یہ ابراہیم علیہ السلام کے ’’محسنین‘‘ میں ہونے کا بیان ہے۔[1] کہ وہ مقامِ احسان پر ان قربانیوں کے نتیجے میں پہنچے ہیں۔ آزمایش کے درجات: اللہ سبحانہ و تعالیٰ جسے چاہیں کسی آزمایش میں مبتلا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایش انسانوں کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمایش کس کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( الأنبیاء ثم الصالحون ثم الأمثل فالأمثل من الناس، یبتلی الرجل علی حسب دینہ، فإن کان في دینہ صلابۃ زید في بلائہ، وإن کان في دینہ رقۃ خفف عنہ، وما یزال البلاء بالصبر حتی یمشی علی ظھر الأرض لیس علیہ خطیئۃ )) [2] ’’انبیا علیہم السلام کی، پھر صالحین کی، پھر لوگوں میں سے سب سے زیادہ فضیلت والوں کی، آدمی کی آزمایش اس کے دین کے بہ قدر کی جاتی ہے۔ اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس کی آزمایش میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کی دینی حالت کمزور ہو تو اس کی آزمایش میں تخفیف کر دی |