ہجرت کے اسباب: ایک ملک یا ایک شہر چھوڑ کر دوسرے ملک یا شہر میں چلے جانے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ علامہ ابن العربی[1] اور انہی کے حوالے سے علامہ قرطبی[2] نے اور علامہ نووی[3] نے ذکر کیا ہے کہ ہجرت کی چھے (۶) نوعیتیں ہیں: 1 دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرض تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حکم ساقط ہو گیا۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (( لا ھجرۃ بعد الفتح )) ’’فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں۔‘‘ البتہ باقی دیار میں یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے کہ دار الحرب کو چھوڑ کر دارالاسلام میں چلے جانا فرض ہے۔ 2 ارضِ بدعت سے ہجرت کرنا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جہاں سلف پر سب و شتم کیا جاتا ہو، وہاں رہنا جائز نہیں۔ ابن العربی نے کہا ہے کہ امام مالک نے یہ بالکل درست فرمایا ہے کیوں کہ منکر کو اگر روکنے پر قدرت نہ ہو تو وہاں ٹھہرنا درست نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ [الأنعام: ۶۸] ’’اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد |