جب کہ ابراہیم علیہ السلام کا نکلنا دین کے لیے تھا اور اللہ کے حکم سے تھا۔ ثالثاً: ایک مقام ناز ہے جس پر حضرت ابراہیم فائز تھے دوسرا مقام امتیاز ہے یہ دوسروں سے ممتاز ضرور ہے مگر اُمید واعتماد کے سہارے پرہے۔ حضرات مفسرین کرام نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے فرد ہیں جنھوں نے اللہ کی رضا کے لیے ہجرت کی۔ اور یہ آیت ہجرت کی دلیل ہے۔ دین و ایمان کی حفاظت کے لیے وطن چھوڑدینا ہی مومن کے ایمان کی علامت ہے۔ اس کے نزدیک وطن کی حیثیت ثانوی ہے اصل مقصد تو اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت ہے اسی تناظر میں یہ حکم ہے: ﴿ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ ﴾ [العنکبوت: ۵۶] ’’اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو ! بے شک میری زمین وسیع ہے، سو تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘ اس لیے جہاں اللہ کی بندگی میں بندشیں ہوں اور کفر و معصیت پر مجبور کیا جاتا ہو، وہاں کی اقامت کے لیے یہ کوئی عذر قابلِ سماعت نہیں کہ ہم وہاں مجبور تھے۔ وطن کا تو بدل ہے مگر دینِ اسلام کاکوئی بدل نہیں۔ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دین کی حفاظت کے لیے ہجرت کی، حبشہ کی طرف بھی اورپھر مدینہ طیبہ کی طرف بھی۔ اُنھوں نے دین و ایمان کے لیے نہ وطن کی پروا کی(اور وطن بھی مکہ مکرمہ!)، نہ مال واولاد کی اور نہ ہی عزیز و اقارب کی۔ اُنھوں نے ہر چیز کو چھوڑنا گوارا کر لیا مگر دین کو دل میں بسائے رکھا۔ جس کا صلہ انھیں دنیا میں بھی حاصل ہوا اور آخرت میں انھیں جنت کی بشارتوں سے نوازا گیا۔ |