﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ ﴾ [ھود: ۷۵] ’’بے شک ابراہیم تو نہایت بردبار بہت آہ و زاری کرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کے فرزند کا یہی وصف اس بات کا مُشعِر ہے جیسے ابراہیم نرم دل اور بردبار تھے ان کا فرزند بھی انھی اوصاف سے متصف ہوگا۔ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے نار نمرود کے وقت تمکنت ووقار کا مظاہرہ کیا اوران کے سکونِ قلب میں کوئی اضطراب پیدا نہیں ہوا، اسی طرح ان کے فرزند کو بھی اپنی قربانی کی خبر سن کر کوئی قلق نہ ہوگا اور اس کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وہ بات سنتے ہی پکار اُٹھے گا: ابا حضور! آپ کو جس کا حکم ملا اس پر عمل کیجیے آپ مجھے صابر پائیں گے۔ یہاں بشارتِ ولد کا ذکر حرفِ ’’فا‘‘ کے ساتھ ہوا ہے جس میں اشارہ ہے کہ یہ بشارت دعا کی قبولیت کے نتیجے میں ہے۔ جب کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت ’’وبشروہ‘‘ کے لفظ سے ہے جیسا کہ سورۃ الذاریات (آیت: ۲۸) میں ہے۔ اور یہ بشارت مزید انعام واکرام کے طور پر ہے۔ یہ بیٹا کون تھا؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت عکرمہ اور قتادہ سے نقل کیا ہے کہ اس سے مراد حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ اوروہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ہی ذبیح قرار دیتے ہیں۔ یہی قول بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے۔ مگر حافظ ابن کثیر نے فرمایا ہے: ’’اہلِ علم کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ ذبیح حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں یہ قول سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے اور بعض صحابہ سے بھی یہ مروی ہے۔ لیکن اس باب میں کتاب و سنت سے کوئی بات ثابت نہیں، میں |