اسی تناظر میں عرض کیا کہ نیک بیٹا عطا فرما جو غریب الوطنی میں غم غلط کرے، وہ میرا مطیع و فرماں بردار ہو۔ نیک بیٹا ہی والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا خدمت گزار ہوتا ہے۔ ﴿ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ﴾ تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ ’’غلام‘‘ اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مَسیں بھیگ چکی ہوں، عمر دس سال سے زائد ہو اور بلوغت کے قریب ہو۔ شیر خواری اور پرورش کے مراحل میں بچے کو ’’طفل‘‘ یا ’’صَبِیٌّ‘‘ کہتے ہیں۔ جب بالغ ہوجائے تو ’’غلام‘‘ کہتے ہیں۔ جب تیس سے چالیس کی عمر ہو تو ’’شاب‘‘ کہتے ہیں۔ چالیس سے اوپر ساٹھ سال عمر ہو تو ’’کھول‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے اوپر ستر یا اسی سال یا اس سے زائد عمر ہو تو اسے ’’شیخ فانی‘‘ یا ’’ھَرِم‘‘ کہتے ہیں۔ ﴿ حَلِيمٍ ﴾ اس کے معنی بردبار، متحمل مزاج، باوقار، جلدی نہ کرنے والا، نرم دل رکھنے والا، مرضی کے خلاف کام ہو جائے تو نہ گھبرانے والا نہ ہی غیض و غضب میں آنے والا۔ بیٹے کا یہ وصف مُشعِر ہے کہ وہ بڑا ہوگا، کیوں کہ گود میں پڑے بیٹے میں یہ اوصاف ظاہر نہیں ہوتے۔ ’’الحلیم‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اسم مبارک ہے۔ امام قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وصف حضرت ابراہیم اور ان کے فرزندِ ارجمند علیہما السلام کے بارے میں ہی بیان کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہے: ﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴾ [التوبۃ: ۱۱۴] ’’بے شک ابراہیم یقینا بہت نرم دل، بڑا برد بار تھا۔‘‘ نیز فرمایا: |