Maktaba Wahhabi

59 - 438
اوسط دس کھرب روزانہ ہے۔ جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور بمشکل ایک ز مین کی سطح تک پہنچتا ہے۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم وبیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک دو لاکھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ [1] ستاروں سے گرنے والی ’’شہاب ثاقب‘‘ کی یہ بارش شیاطین کو آسمانِ دنیا تک پہنچنے سے مانع ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم بچ بچا کر اور چھپ چھپا کر اوپر جائیں اور فرشتوں کی کوئی بات سن لیں۔ بعض اعتراضات کا جواب: امام رازی رحمہ اللہ نے یہاں حسبِ ذوق یہ سوال اٹھایا ہے کہ شہاب ثاقب ستاروں سے ہیں تو ستاروں کی تعداد اور آسمان کی زینت میں بتدریج کمی ہونی چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے اور اگر یہ ستاروں سے نہیں ہیں تو یہ سورۃ الملک (آیت: ۵) کے منافی ہے جس میں ﴿وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ ﴾ فرمایا گیا ہے کہ مصابیح کو شیطان کے مارنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں: اہلِ ارض کو فضا میں جو چیز روشن اور چمکتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ ان کے لیے مصابیح ہیں، مگر ان میں کچھ وہ ہیں، جو ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں اور بعض وہ ہیں، جو ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں اور یہی شہاب ثاقب ہیں۔ مگر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے کہ ستاروں سے ’’شہاب ثاقب‘‘ نکلتے ہیں وہ ستاروں کا حصہ نہیں ہیں۔
Flag Counter