﴿شِهَابٌ ثَاقِبٌ ﴾ شہاب کے معنی بلند شعلہ کے ہیں خواہ وہ جلتی ہوئی آگ کا ہو یا فضا میں کسی عارضہ کی وجہ سے پیدا ہو جائے۔[1] اور ثاقب، یعنی اتنا روشن کہ جس چیز پر اس کی کرنیں پڑیں اس میں چھید کرتی ہوئی پار گزر جائیں۔[2] غالباً اسی بنا پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ شہاب ثاقب لگنے سے شیاطین مرتے یا جلتے نہیں زخمی ہوتے ہیں۔[3] چنانچہ ﴿شِهَابٌ ثَاقِبٌ ﴾ کے معنی ہوئے: شعلہ چمکتا ہوا جو تاریکی کو چھیدنے والا ہے۔ قرآنِ مجید میں ﴿الطَّارِقِ﴾ کو ﴿النَّجْمُ الثَّاقِبُ ﴾ ستارہ چمکتا ہوا کہا گیا ہے۔ سورۃ الحجر میں ’’شہاب ثاقب‘‘ کو ’’شہاب مبین‘‘ یعنی شعلہ روشن، بھی کہا گیا ہے۔ [الحجر: ۱۸] یہ ’’شہاب ثاقب‘‘ ستاروں سے نکلتے ہیں، جیسا کہ سورۃ الملک میں ہے: ﴿وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ ﴾ [الملک: ۵] ’’اور بلاشبہہ یقینا ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے انھیں شیطانوں کو مارنے کے آلے بنایا۔‘‘ شیاطین اوپر فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے پرواز کرتے ہیں اور چھپ چھپا کر کچھ سن لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ’’شہاب ثاقب‘‘ ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ ’’شہاب ثاقب‘‘ ستاروں سے نہیں ٹوٹتے بلکہ ان سے یہ نکلتے اور برآمد ہوتے ہیں۔ سیّد مودودی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دور بین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، ان کی تعداد کا |