بُری صحبت سے بچنا: اس واقعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں اپنا ہم نشین اور دوست بنانے میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آدمی جسے اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے، وہ باتوں باتوں میں اسے جہنم میں لے جانے کا باعث بن جائے۔ توحید کی جگہ شرک، ایمان کی بجائے کفر، اطاعت واتباع کے برعکس بدعات وخرافات، نیکی کی بجائے بدی میں مبتلا کر دینے کا سبب بن جائے۔ انسان بسا اوقات ایک نافرمان اور معصیت کار سے تعلقات استوار کرتا ہے اور وہ اسے غیر محسوس طریقے سے اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے جس کا انجام بالآخر انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک آدمی کی مجلس میں بیٹھنے اور بُرے سے بچنے کا حکم فرمایا ہے اور مثال دے کر سمجھایا ہے کہ نیک کے پاس بیٹھنے کی مثال کستوری اٹھانے والے کی ہے کہ وہ اگر اس سے کچھ خریدے گا نہیں، خوش بُو تو اسے آئے گی۔ اور بُرے آدمی کے پاس بیٹھنے کی مثال بھٹی میں پھونک مارنے والے لوہار کی ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے سے چنگاری کپڑوں کو جلائے گی یا کم سے کم اس کا دھواں تو اسے ضرور پہنچے گا۔[1] کسی انسان سے دوستی کا معیار دین وعقیدہ ہونا چاہیے۔ بے دین اور اَخلاق وکردار سے عاری انسان کی دوستی بدنامی کا باعث ہوتی ہے۔ عربی شاعر نے کہا ہے ؎ عن المرء لا تسئل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدي ’’کسی آدمی کے بارے میں معلوم کرنا ہو تو اس کے بارے میں نہ پوچھو بلکہ اس کے دوست کے بارے میں پوچھو، اس لیے کہ ہر دوست اپنے دوست کی اقتدا کرتا ہے۔‘‘ |