Maktaba Wahhabi

162 - 438
کے بیان کے لیے آتے ہیں، جیسے یہاں فرمایا کہ یقینا تو قریب تھا کہ تُو مجھے ہلاک ہی کردے۔ ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے: ﴿ وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴾ [بني إسرائیل: ۷۴] ’’اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھے ثابت قدم رکھا تو بلاشبہہ یقینا تو قریب تھا کہ کچھ تھوڑا سا ان کی طرف مائل ہوجاتا۔‘‘ ﴿ لَتُرْدِينِ ﴾ میں لام مفارقت کے لیے ہے۔ ’’الردیٰ‘‘ جس کے معنی ہلاکت کے ہیں۔ تردین، ارداء (باب افعال) سے مضارع کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ہلاک کرنا، یعنی تو مجھے ہلاک ہی کردیتا۔ ﴿ وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ ﴾ ’’اور اگر میرے ربّ کی نعمت نہ ہوتی تو یقینا میں بھی ان میں ہوتا جو (جہنم میں) حاضر کیے گئے ہیں۔‘‘ آج میرا بھی وہی حشر ہوتا جو تمھارا ہو رہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں تیری چکنی چپڑی باتوں میں نہ آیا ورنہ تُو نے گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ گویا تیرے بھرے میں مَیں نہیں پھنسا تو یہ میرا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل واِحسان ہے۔ جنتی اسی حقیقت کا اظہار یوں کریں گے: ﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ﴾ [الأعراف: ۴۳] ’’سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔‘‘ مومنِ صادق اسے اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھتا ہے۔ نہ کوئی اس میں اپنا استحقاق جانتا ہے اور نہ ہی اپنا کمال سمجھتا ہے۔
Flag Counter