ادائیگی میں کوتاہیاں ہوگئی تھیں۔‘‘[1] ثانیاً: ’’لوگوں ‘‘ نے نہیں علمائے کرام نے اس پر اعتراض کیا تو اس کے بعد اس عبارت کو کہ ’’یونس علیہ السلام سے فریضۂ رسالت کو ادا کرنے میں کوتاہیاں ہو گئی تھیں‘‘ حذف کر دیا گیا۔ اس لیے ’’تفہیم القرآن‘‘: (۴/ ۳۰۹) میں جو بات بنائی گئی، وہ حقیقت کے مطابق نہیں۔ عرصہ ہوا مفتی محمد یوسف صاحب نے ’’مولانا مودودی پر اعتراضات کا علمی جائزہ ‘‘ کے حصہ اول میں اس بحث کو اُٹھایا اورمولانا مودودی کے دفاع میں غیر مستند تفسیری اقوال کی بنیاد پر بڑی دلیری سے بار بار لکھا کہ ’’حضرت یونس علیہ السلام سے فریضۂ رسالت کو ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی تھی‘‘ حالانکہ خود انھیں بھی اس حقیقت کا اعتراف ہے: ’’تفہیم القرآن جلد دوم کے تازہ اِڈیشن میں سورت یونس کا حاشیہ یوں بدل دیا گیا ہے اور اس میں سے یہ فقرہ حذف کر دیا ہے کہ ’’حضرت یونس علیہ السلام سے فریضۂ رسالت کو ادا کرنے میں کچھ کوتاہیاں ہو گئی تھیں۔‘‘[2] مولانا مودودی نے تو یہ عبارت حذف کر دی مگر مفتی محمد یوسف نے تو بار بار اس کو درست قرار دیا ہے، اب ہم اس پر بجز اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ’’مدعی سست گواہ چست‘‘ مولانا مودودی کی اس عبارت کے علاوہ اسی بحث میں ان کی بعض دیگر تصریحات و نتائج سے بھی اتفاق مشکل ہے۔ مگر ہم اس کی تفصیل یہاں مناسب نہیں سمجھتے۔ قادیانی تلبیس کا جواب: سورت یونس اور الصّٰفّٰت کی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب نہ آنا ان کے ایمان کے نتیجے میں تھا۔ جس سے مرزا قادیانی |