Maktaba Wahhabi

237 - 438
ابراہیم علیہ السلام نے بھی اسی تناظر میں ستاروں پر نگاہ ڈالی اور فرمایا: میں بیمار ہوں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔علامہ آلوسی نے فرمایا ہے کہ یہ قطعاً مناسب نہیں کہ علم نجوم کی نسبت امام الحنفاء، شیخ الانبیاء، خلیل رب الارض و السماء کی طرف کی جائے۔[1] 3 بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم علم نجوم پر یقین رکھتی تھی اور ستاروں کو دیکھ کر اپنے معاملات کا تعیّن کرتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو اطمینان دلانے کے لیے ستاروں کو دیکھا تاکہ وہ سمجھیں کہ ستاروں کو دیکھ کر اُنھوں نے اپنی بیماری کی بات کی ہے، کوئی بہانہ بازی نہیں کی۔ یہ ترکیب اُنھوں نے جان چھڑانے اور اپنے مقصد کو پانے کے لیے اختیار کی تھی۔ علم نجوم کی حیثیت: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورج، چاند اور ستاروں کو انسانوں کی منفعت کے لیے بنایا ہے اور یہ قدرتِ الٰہی کے مظاہر ہیں۔ انسان ان سے روشنی حاصل کرتا ہے، اندھیری راتوں میں ستاروں کے ذریعے راستہ اورسمت پاتا ہے۔ بلکہ کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جن کا انسان مشاہدہ کرتا ہے جیسے چاند کے گھٹنے بڑھنے سے سمندر میں مدّو جزر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنیٰ قطعاً نہیں کہ نظام ارضی ستاروں سے وابستہ ہے یا انسان کی قسمت سنوارنے یابگاڑنے میں ان کو قدرت حاصل ہے۔ ستاروں کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ مشرکانہ ہے۔ اہلِ عرب بارش کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ایک خاص ستارہ بارش لے کر آتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ’’من قال: مطرنا بفضل اللّٰہ ورحمتہ فذلک مؤمن بي کافر بالکواکب، وأما من قال: مطرنا بنوء کذا وکذا فذلک کافر بي مؤمن بالکواکب‘‘[2]
Flag Counter