Maktaba Wahhabi

238 - 438
’’جو کہتا ہے: ہمیں اللہ کے فضل و رحمت سے بارش دی گئی ہے، وہ میرے ساتھ ایمان رکھتا ہے اور ستاروں سے کفر کرتا ہے۔ اور جو کہتا ہے: فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے پر بارش ہوئی، وہ میرا انکار کرتا ہے اور ستاروں پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘ البتہ وہ شخص جو یہ ایمان رکھتا ہے کہ موثرِ حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ نے ستاروں کو بعض خواص عطا فرمائے ہیں اور وہ زمین پر اور انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں تو یہ شرک نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم بادل کو بارش کا سبب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بارش اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے برستی ہے۔لیکن اس کے لیے علمِ نجوم کی تحصیل اور اسی پر اعتماد بہر حال غلط اور ناجائز ہے۔ جو لوگ ستارہ شناسی کا دعویٰ کرکے بہ زعمِ خود مستقبل کی خبریں دیتے ہیں تو ان کا یہ فعل بھی حرام اور شرک ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ﴾ [النمل: ۶۵] ’’کہہ دے: اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے، غیب نہیں جانتا۔‘‘ امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو تین اغراض کے لیے پیدا کیا ہے: 1.آسمان کی زینت، 2.شیطان کومارنا اور 3.راستہ معلوم کرنا۔ جس نے ان تین اغراض کے علاوہ کچھ اور سمجھا اس نے غلطی کی، اپنی آخرت کا حصہ برباد کر دیا اور ایسی بات کا تکلف کیا جس کا اسے علم نہیں۔[1] سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إذا ذکر أصحابي فأمسکوا، وإذا ذکر النجوم فأمسکوا،
Flag Counter