’’سو کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو، پھر اس کے ایمان نے اسے نفع دیا ہو، یونس کی قوم کے سوا، جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور انھیں ایک وقت تک سامان دیا۔‘‘ یہاں بھی ان کے ایمان کا اور ایک مقرر وقت تک دنیا کی زندگی سے فائدہ اُٹھانے کا ذکر ہے۔ یہ ایمان یونس علیہ السلام کے نینوا سے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لیے تھا اور سورۃالصّٰفّٰت میں ایمان کا ذکر یونس علیہ السلام کی واپسی پر بطور عین الیقین تھا، چونکہ وہ قوم ان کی تلاش میں تھی کہ یونس ( علیہ السلام ) کہاں چلے گئے، جب وہ قوم کے پاس پہنچے تو اُنھوں نے خوشی بہ خوشی اپنے ایمان کااظہار کیا۔ ایک ناگوار وضاحت: مولانا مودودی مرحوم نے یہاں فرمایا ہے: ’’حضرت یونس علیہ السلام کے اس قصے کے متعلق سورت یونس اور سورۃ الانبیاء کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر بعض لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دوسرے مفسرین کے اقوال بھی نقل کر دیے جائیں۔‘‘[1] اولاً: جن ’’لوگوں‘‘ نے اعتراضات کیے ہیں، وہ سورت یونس کی تفسیرمیں ان کے ان الفاظ پر ہیں: ’’قرآن کے اشارات اور صحیفۂ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے اتنی بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام سے فریضۂ رسالت کی |