تقدیر کا ثبوت: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کسی کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ گمراہ وہی ہوتا ہے جس کے مقدر میں گمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے اور اس میں خطا و غلطی کا کوئی امکان نہیں اس کا علم صحیح اور اس کا فیصلہ بھی برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بنا پر انسان کے پیدا ہونے سے پہلے تو کیا، زمین و آسمان کی تخلیق سے بھی پچاس ہزار سال پہلے ہر انسان کے بارے میں لکھ دیا کہ کون ہدایت پائے گا اور کون گمراہ ہوگا۔ ایمان و تقویٰ جس کا مقدر ہے اس کے لیے ایمان و تقویٰ کی راہیں آسان فرما دیں اور اس کے لیے ایمان و تقویٰ کو پیدا کر دیا گیا اور جس کا مقدر کفر و ضلالت ہے اس کے لیے کفر کی راہیں آسان کر دی گئیں اور اس کے لیے کفر و گمراہی پیدا کر دی گئی۔ خیر و شر کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کاسِب و عامل ہے۔ شیطان اور اس کے چیلے شر کے داعی ہیں وہ نہ شر کے خالق ہیں نہ ہی کسی کو شر میں مبتلا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ شر میں وہی مبتلا ہوتا ہے جس کے مقدر میں ضلالت وگمراہی ہے قیامت کے روز شیطان اسی حقیقت کا اعتراف کرے گا: ﴿ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ ﴾ [إبراہیم: ۲۲] ’’بے شک اللہ نے تم سے وعدہ کیا سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تمھیں بلایا تو تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔‘‘ |