﴿ الْجَحِيمِ ﴾ بھڑکتی آگ، دہکتی ہوئی آگ یا دوزخ۔ یعنی تم اور تمھارے معبودانِ باطلہ سب مل کر تم کسی کو اپنی فتنہ پر دازیوں میں مبتلا نہیں کر سکتے۔ تمھارے جال میں وہی پھنسے گا جو غفلت شعار ہے اور جہنم کا ایندھن بننے والا ہے، جیسے فرمایا: ﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ﴾ [الأعراف: ۱۷۹] ’’ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔‘‘ اسی قماش کے لوگ شیاطین کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے اور راہِ حق سے گمراہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو روزِ اول ہی شیطان سے کہہ دیا تھا: ’’جس کو تو اپنی آواز کے ساتھ بہکا سکتا ہے، بہکالے اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا کر لے آاور اموال اور اولاد میں ان کا حصے دار بن اور انھیں وعدے دے، مگر میرے بندوں پر تیرا کوئی غلبہ نہیں ہوگا۔‘‘ [بني إسرائیل: ۶۵۔ ۶۴] بلکہ شیطان نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا: ﴿ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (82) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴾ [ص: ۸۳۔ ۸۲] ’’کہا تو قسم ہے تیری عزت کی کہ میں ضرور بالضرور ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو چنے ہوئے ہیں۔‘‘ یہی حقیقت ایک دوسرے اسلوب میں یہاں بیان ہوئی ہے۔ |