Maktaba Wahhabi

387 - 438
سے ہے۔ جن انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا ہے یہ سب انبیا علیہم السلام تو ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے اور اسی کی دعوت دیتے رہے حتیٰ کہ یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں بھی اللہ ہی کی الوہیت کا اعتراف کیا، ان سے پوچھیں اور کفارِ قریش سے پوچھیں کہ ملائکہ رب تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں؟ رسولوں سے سوال کا مطلب ان کی کتابوں اور صحیفوں سے معلوم کرنا ہے۔ جیسا کہ ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے: ﴿ وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ ﴾ [الزخرف: ۴۵] ’’اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیا ہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں، جن کی عبادت کی جائے۔‘‘ مگر یہ محض تکلف ہے بعد کا جملہ ﴿وَلَهُمُ الْبَنُونَ ’’اور ان کے لیے بیٹے‘‘ مُشعِر ہے کہ یہ سوال کفارِ قریش ہی سے تھا جو فرشتوں کو تو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور اپنے لیے بیٹے پسند کرتے تھے۔ بیٹی کی ولادت کی انھیں اطلاع دی جاتی تو منہ بسورتے اور غصے سے بھرجاتے تھے۔ سورت کی ابتدا میں جیسے ﴿ فَاسْتَفْتِهِمْ ﴾ میں سوال کفارِ مکہ سے ہے اسی طرح یہاں بھی سوال انھی سے ہے۔ ﴿ فَاسْتَفْتِهِمْ ﴾ یہ ’’فتی‘‘ سے ہے، اسی سے ’’فتویٰ، فتیا‘‘ اور ’’افتاء‘‘ ہے جس کے معنی رائے دینا، مشکل مسئلے کا جواب دینا ہیں۔ ’’افتاہ‘‘ کے معنی فتوی دینے، جواب کی وضاحت کرنے اور’’استفتاء‘‘ کے معنی سوال پوچھنے اور فتوی طلب کرنے کے ہیں۔ سوال پوچھنے والے کو مستفتی اور فتویٰ دینے والے کو مفتی کہتے ہیں۔ سوال کرنے اور فتویٰ طلب کرنے کی چارنوعیتیں ہوتی ہیں: 1 اگر کوئی عالم فاضل کسی جاہل سے سوال کرے تو یہ سوال بطور تنبیہ یا وضاحت ہوتا ہے بشرطیکہ جاہل معاند نہ ہو۔
Flag Counter