2 اگر جاہل معاند ہو تو اس سے سوال زجر و توبیخ اور اس کی توہین کے لیے ہوتا ہے۔ 3 اگر اہلِ علم سے سوال ایسا جاہل اور بے علم کرے جو رشد و ہدایت اور علم کا طالب ہے تو وہ راہ صواب کے لیے ہے۔ 4 اور اگر معاند و متکبر سوال کرے تو وہ بطورِ استہزا اور مذاق ہوگا۔ جیسے کفار نے کہا: ﴿ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ ﴾ [الأنفال: ۳۲] ’’تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔‘‘[1] یہ اُنھوں نے بطورِ مذاق کہا تھا۔ یہاں بھی جاہل معاندین سے یہ سوال ان کی توہین و توبیخ کے طور پر ہے۔ جس سے ان کی جہالت وحماقت نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ قریش مکہ کے علاوہ جہینہ، بنو سلمہ، بنو خُزاعہ اوربنو مُلَیح قبائل کا عقیدہ تھا کہ فرشتے، معاذ اللہ، اللہ کی بیٹیاں ہیں، عورتوں کی شکل پر ان کے بت بنا رکھے تھے۔ بتوں کے نام مونث تھے جیسے لات، مناۃ، عزیٰ، نائلہ۔ دیویوں کے نام پر ہندوؤں کے ہاں آج بھی پرستش ہو رہی ہے بلکہ مسلمانوں میں بھی بعض ’’بزرگ ‘‘ زنانہ لباس پہنتے اورزنانہ وضع قطع رکھتے ہیں۔ ’’موسیٰ سہاگ‘‘ جو مجذوب بتلائے جاتے ہیں، ان کی یہی حالت تھی ان کے بعض مجاور بھی یہی لباس اختیار کرتے تھے۔[2] حالانکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورت کا لباس پہنے اور اس عورت پر جو مرد کا لباس پہنے۔[3] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا ﴾ [النساء: ۱۱۷] |