’’وہ اس کے سوا نہیں پکارتے مگر مونثوں کو اور نہیں پکارتے مگر سرکش شیطان کو۔‘‘ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر بت کے ساتھ جننی (جن کی مونث) ہوتی ہے۔[1] جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عُزّیٰ کو گرایا تو حبشی رنگ کی جننی دانت نکالے ہوئے بال بکھیرے ہوئے ظاہر ہوئی جسے اُنھوں نے قتل کر دیا۔[2] یوں بتوں، درختوں اور قبروں کی صورت میں شیطان جننیوں اور جنوں کی پرستش ہوتی رہی اور ہو رہی ہے۔ ﴿ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ ﴾ ہمزہ استفہام انکاری ہے اور زجر و توبیخ کے لیے ہے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ہے کہ ان سے پوچھیے ’’کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں ہیں؟‘‘ حالانکہ بظاہر یہاں ’’الربہم‘‘ چاہیے کہ کیا ان کے رب کے لیے بیٹیاں ہیں۔ لیکن جب اُنھوں نے انسانوں کی طرح رب تعالیٰ کی اولاد کا دعویٰ کیا تو گویا اُنھوں نے رب تعالیٰ کی ربوبیت کا ہی انکار کر دیا اور ’’لربک‘‘ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اضافت آپ کی عظمتِ شان کی بنا پر ہے کہ آپ کے رب کے بارے میں یہ ہرزہ سرائی کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں جب کہ وہ اپنے لیے بیٹوں کو پسند کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمایا ہے: ﴿ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى (21) تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى (22) ﴾ [النجم: ۲۱، ۲۲] ’’کیا تمھارے لیے لڑکے ہیں اور اس کے لیے لڑکیاں؟ یہ تو اس وقت ناانصافی کی تقسیم ہے۔‘‘ |