کوئی یونس بن مَتّٰی سے افضل ہے۔[1] ان احادیث کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ کسی کو نہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو یونس علیہ السلام سے افضل خیال کرے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو نہیں چاہیے کہ مجھے یونس بن متّٰی سے افضل قرار دے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: ’’مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو، نہ یونس بن متّٰی پر فضیلت دو۔‘‘ حافظ ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد تواضع اور انکساری کے طور پر ہے۔[2] حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ طبرانی میں عبداللہ بن جعفر کی حدیث میں ’’لا ینبغی لنبي أن یقول‘‘ کے الفاظ اس بات کے مؤید ہیں کہ پہلی حدیثِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔[3] یعنی تم میں سے کوئی میرے بارے میں نہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام سے افضل ہوں۔ افضیلت انبیا علیہم السلام کا مسئلہ: انبیائے کرام علیہم السلام کے مابین فضیلت و برتری کی جو ممانعت ہے یہ اس بنا پر ہے کہ افضیلت کا اظہار کسی دلیل پر مبنی نہ ہو بلکہ محض اپنی عقیدت اور رائے کے تناظر میں ہو۔ یا اس میں دوسرے نبی کی تنقیصِ شان کا پہلو ہو، یا فضیلت کا اظہار ان کے ماننے والوں میں خصومت اور لڑائی کا باعث بنے۔ اس ممانعت کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام فضائل میں برتری ثابت کی جائے اور جزوی طور پر بھی دوسرے نبی کی فضیلت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ امام مؤذن سے افضل ہے تو یہ مؤذن کی اس فضیلت کی کمی کو مستلزم نہیں جو اذان کی نسبت سے مؤذن کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔ ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ یہ ممانعت حق نبوت کے اعتبار سے ہے کہ نبی ہونے کے ناتے ہم سب پر برابر ایمان رکھنے کے مکلف ہیں: |