﴿ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ﴾ [البقرۃ: ۲۸۵] ’’ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے۔‘‘ بعض اعتبارات کے لحاظ سے برتری بیان کرنے کی ممانعت نہیں اللہ تعالیٰ ہی نے فرمایا ہے: ﴿ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ﴾ [البقرۃ: ۲۵۳] ’’یہ رسول ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔‘‘ لہٰذا بعض کو بعض پر فضیلت خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے دی ہے تو اس فضیلت کو بیان کرنا ’’تخییر بین الانبیاء‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی فضیلتوں کو بیان کرنا اور حکایت کرنا ہے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضیلت کا مسئلہ مسلمان کے دین و ایمان کا مسئلہ ہے قاضی عیاض نے اس حوالے سے ’’الشفاء‘‘ میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ ﴿ إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴾ ’’اَ بَقَ‘‘ کے معنی بھاگنے کے ہیں اور یہ لفظ عربی زبان میں عموماً اس وقت بولاجاتا ہے جب غلام اپنے آقا سے بھاگ جائے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے: ’’عبد ابق‘‘ غلام بھاگ گیا۔[2] حضرت یونس علیہ السلام نے ’’نینوا‘‘ کے رہنے والوں کو توحید کی دعوت دی مگر ان کی قوم نے ناقدری کی اور کفر و شرک پر قائم رہی۔ قوم سے آزردہ خاطر ہو کر راہِ حق کی غیرت میں قوم سے ناراض ہو کر بستی سے نکل گئے اور انھیں خبر دار کرکے گئے کہ نافرمانی کے جرم میں تین دن کے بعد تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب مسلط ہوگا۔ ان کا بستی سے نکلنا جذبۂ حق کی پیروی میں تھا۔ اللہ کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے کسی سے عداوت ایمان کی بنیاد ہے۔ اس جذبہ کے تحت قوم سے دلبرداشتہ ہو کر وہاں سے نکلے |