Maktaba Wahhabi

359 - 438
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں وہاں سے نکل جانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال توحید کی دعوت دی مگر دلبرداشتہ ہو کر نہ تو ان کے لیے بددعا کی اور نہ ہی بستی کو خیر باد کہا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ آئندہ ان میں سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا۔[1] تب اُنھو ں نے قوم کے بارے میں بددعا کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون کی تما م تر چیرہ دستیوں کے باوجود مصرکو خیر باد نہیں کہا۔ وہ وہاں سے تبھی نکلے جب اللہ تعالیٰ نے انھیں مصر سے نکل جانے کا حکم فرمایا۔[2] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرت ِ مدینہ کی اجازت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو تبھی خیر باد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کوہجرت کی اجازت دی۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( علی رسلک، فإني أرجو أن یؤذن لي )) [3] ’’ٹھہریں، مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے نکلنے کی اجازت دیں گے۔‘‘ حضرت یونس علیہ السلام بغیر اجازت کے بستی سے نکل گئے، ان کا یہ اقدام اگرچہ حق کی حمیت و غیرت میں تھا مگر اللہ تعالیٰ کو ان کا یوں بغیر اجازت نکل جانا پسند نہ آیا۔ اس لیے یہاں ان پر ’’ابق‘‘ کا اطلاق معنوی طورپر صادق آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ ﴾ [القلم: ۴۸] ’’پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو۔‘‘
Flag Counter