یعنی اہلِ مکہ پر فوری طور پر عذاب نہ آنے سے کبیدہ خاطر نہ ہوں بلکہ صبر کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوں جو ملول خاطر ہو کر بغیر اجازت بستی سے نکل گئے تھے۔ یونس علیہ السلام نینوا سے نکلے دریائے فرات کے کنارے پہنچے۔ وہاں جانے کے لیے تیار بھری ہوئی کشتی مل گئی۔ ’’الفلک المشحون‘‘ موصوف صفت ہیں یعنی لدی اور بھری ہوئی کشتی۔ کہیں چلے جانے کے لیے وہ بستی سے نکلے تھے۔ جانے کے لیے تیار بھری ہوئی کشتی ملی تو آؤ دیکھا نہ تاؤ اس میں سوار ہو گئے۔ ﴿ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ ﴾ ’’ساھم‘‘ یہ ’’السھم‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں قرعہ اندازی کے تیر وغیرہ۔ اور ’’ساھم‘‘ کے معنی ہیں قرعہ میں شریک ہونا، کسی کے ساتھ مل کے قرعہ ڈالنا۔ اور ’’المدحضین‘‘ جمع مذکر کا صیغہ ہے جس کا واحد ’’مدحض‘‘ ہے۔ جس کے معنی مغلوب ہونے، شکست کھانے اور ہارنے کے ہیں۔ حضرت یونس قرعہ میں شریک ہوئے تو وہ ہارنے والوں میں سے ہو گئے۔ ہوا یوں کہ جب بھری ہوئی کشتی میں یونس علیہ السلام سوار ہوئے تو تھوڑی دیر کے بعد کشتی دریا کی موجوں میں ڈگمگانے لگی۔ کشتی کے غرق ہونے کا خدشہ ہو گیا۔ حضرت ابنِ مسعود سے منقول ہے کہ یونس علیہ السلام نے فرمایا: کیا بات ہے کشتی ہچکولے کھا رہی ہے؟ کشتی بانوں نے کہا معلوم نہیں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یونس علیہ السلام نے فرمایا: میں اس کا سبب سمجھتا ہوں اس میں ایک غلام سوار ہے جو اپنے مالک سے بھاگ کے آیا ہے تم جب تک اس مفرور کو دریا میں نہیں پھینکوگے یہ کشتی کنارے نہیں لگے گی۔ وہ حضرت یونس علیہ السلام کو جانتے پہچانتے تھے کہنے لگے آپ تو ایسے نہیں ہو سکتے نہ آپ کو دریا میں پھینک سکتے ہیں۔ یونس علیہ السلام نے فرمایا: قرعہ اندازی کر لو، جس کے نام قرعہ نکلے اسے دریا میں ڈال دیا جائے۔ (تاکہ دوسروں کی تو جان بچ جائے) چنانچہ تین بار قرعہ ڈالا |