محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ابراہیمی مشن کے علَم بردار ہیں وہ بھی ایک روز کامیابی سے ہم کنار ہوں گے۔ اور آپ کے مخالفین سرنگوں اور نامراد ہوں گے۔ پرویزی انحراف: یہاں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ غلام احمد پرویز نے لکھا ہے: ’’یہاں ﴿ فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا ﴾ کہا ہے۔ یعنی اُنھوں نے ابراہیم علیہ السلام کے خلاف اس منصوبے کا ارادہ کیا تھا، سچ مچ انھیں آگ کی بھٹی میں نہیں ڈال دیا تھا، وہ ابھی اپنی تدبیروں ہی میں لگے ہوئے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس مقام سے ہجرت فرما کر دوسری جگہ تشریف لے گئے۔‘‘[1] مگر ان کی یہ تعبیر ادھوری ہے۔ یوں نہیں کہ قومِ ابراہیم منصوبے ہی بناتی رہی اور وہ وہاں سے ہجرت کر گئے۔ بلکہ سورۃالانبیاء میں وضاحت ہے کہ اُنھوں نے ابراہیم علیہ السلام کو جلا دینے کا فیصلہ کیا۔ اور انھیں آگ میں جھونک دیا مگر اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا: ﴿ قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (68) قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ﴾ [الأنبیاء: ۶۹، ۶۸] ’’اُنھوں نے کہا: اسے جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو، اگر تم کرنے والے ہو۔ ہم نے کہا: اے آگ! تو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔‘‘ یہاں ﴿ حَرِّقُوهُ ﴾ اور سورۃ الصّٰفّٰت میں ﴿ ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ﴾ کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ اُنھوں نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے مطابق واقعی ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ ان کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی۔ ایک اور مقام پر فرمایاگیا ہے: |