اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت و رحمت سے آگ کو ان کے لیے سرد اور سلامتی والا بنا دیا اور دشمنوں کو نیچا کر دیا۔ یہاں ان کے لیے ﴿ فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ ﴾ فرمایا گیا ہے۔ جب کہ سورۃ الانبیاء میں ہے: ﴿ فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ ﴾ [الأنبیاء: ۷۰] ’’ہم نے انھی کو انتہائی خسارے والا کر دیا۔‘‘ اس میں اشارہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سرفراز ہوئے اور ان کے دشمن سرنگوں اور ذلیل و رسوا ہوئے۔ صرف دنیا میں ہی نہیں وہ آخرت میں بھی رسوا ہوں گے اور اُن کا مال و متاع اور ان کے گروہ کا کوئی فرد ان کے کام نہیں آئے گا ان کی جلائی ہوئی آگ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی جب کہ آخرت میں جو آگ ان کا مقدر بنے گی، وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں: ٭ ﴿ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴾ [البقرۃ: ۲۴] ’’جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘ ٭ ﴿ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا ﴾ [الإسراء: ۹۷] ’’جب کبھی بجھنے لگے گی ہم ان پر بھڑکا نا زیادہ کر دیں گے۔‘‘ چنانچہ سلامتی کا وہاں کوئی تصور نہیں ہوگا: ﴿ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ﴾ [الفرقان: ۶۶] ’’بے شک وہ بری ٹھہرنے کی جگہ اور اقامت کی جگہ ہے۔‘‘ اس لیے سراسر خسارہ ان کا مقدر ہے۔ ابراہیم علیہ السلام تو یہاں سرخ رو ہوئے اور قیامت میں بھی کامیابی ان کا نصیب بنے گی۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا میاب ہوئے اور ان کی قوم سرِ عام رسوا ہوئی اسی طرح |